احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے
صحيح بخاري
55:
كتاب الوصايا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
1:
باب الوصايا:
باب: اس بارے میں وصیتیں ضروری ہیں۔
2:
باب أن يترك ورثته أغنياء خير من أن يتكففوا الناس:
باب: اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
3:
باب الوصية بالثلث:
باب: تہائی مال کی وصیت کرنے کا بیان۔
4:
باب قول الموصي لوصيه تعاهد ولدي. وما يجوز للوصي من الدعوى:
باب: وصیت کرنے والا اپنے وصی سے کہے کہ میرے بچے کی دیکھ بھال کرتے رہنا اور وصی کے لیے کس طرح کے دعوے جائز ہیں؟
5:
باب إذا أومأ المريض برأسه إشارة بينة جازت:
باب: اگر مریض اپنے سر سے کوئی صاف اشارہ کرے تو اس پر حکم دیا جائے گا؟
6:
باب لا وصية لوارث:
باب: وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
7:
باب الصدقة عند الموت:
باب: موت کے وقت صدقہ کرنا۔
8:
باب قول الله تعالى: {من بعد وصية يوصي بها أو دين}:
باب: اللہ تعالیٰ کا
(سورۃ نساء میں)
یہ فرمانا کہ ”وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد حصے بٹیں گے“۔
9:
باب تأويل قول الله تعالى: {من بعد وصية يوصي بها أو دين}:
باب: اللہ تعالیٰ کے
(سورۃ نساء میں)
یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی۔
10:
باب إذا وقف أو أوصى لأقاربه ومن الأقارب:
باب: اگر کسی نے اپنے عزیزوں پر کوئی چیز وقف کی یا ان کے لیے وصیت کی تو کیا حکم ہے اور عزیزوں سے کون لوگ مراد ہوں گے۔
11:
باب هل يدخل النساء والولد في الأقارب:
باب: کیا عزیزوں میں عورتیں اور بچے بھی داخل ہوں گے۔
12:
باب هل ينتفع الواقف بوقفه:
باب: کیا وقف کرنے والا اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
13:
باب إذا وقف شيئا فلم يدفعه إلى غيره فهو جائز:
باب: اگر وقف کرنے والا مال وقف کو
(اپنے قبضہ میں رکھے)
دوسرے کے حوالہ نہ کرے تو جائز ہے۔
I4:
باب إذا قال داري صدقة لله ولم يبين للفقراء أو غيرهم. فهو جائز ويضعها في الأقربين أو حيث أراد:
باب: اگر کسی نے یوں کہا کہ میرا گھر اللہ کی راہ میں صدقہ ہے، فقراء وغیرہ کے لیے صدقہ ہونے کی کوئی وضاحت نہیں کی تو وقف جائز ہوا اب اس کو اختیار ہے اسے وہ اپنے عزیزوں کو بھی دے سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کیونکہ صدقہ کرتے ہوئے کسی کی تخصیص نہیں کی تھی۔
15:
باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي. فهو جائز وإن لم يبين لمن ذلك:
باب: کسی نے کہا کہ میری زمین یا میرا باغ میری
(مرحومہ)
ماں کی طرف سے صدقہ ہے تو یہ بھی جائز ہے خواہ اس میں بھی اس کی وضاحت نہ کی ہو کہ کس کے لیے صدقہ ہے۔
16:
باب إذا تصدق أو أوقف بعض ماله أو بعض رقيقه أو دوابه فهو جائز:
باب: جب کسی نے اپنا کوئی مال یا اپنا کوئی غلام یا جانور صدقہ یا وقف کیا تو جائز ہے۔
17:
باب من تصدق إلى وكيله ثم رد الوكيل إليه:
باب: اگر صدقہ کے لیے کسی کو وکیل کرے اور وکیل اس کا صدقہ پھیر دے۔
18:
باب قول الله تعالى: {وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين فارزقوهم منه}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جب
(میراث کی تقسیم)
کے وقت رشتہ دار
(جو وارث نہ ہوں)
اور یتیم اور مسکین آ جائیں تو ان کو بھی ترکے میں سے کچھ کچھ کھلا دو
(اور اگر کھلانا نہ ہو سکے تو)
اچھی بات کہہ کر نرمی سے ٹال دو“۔
19:
باب ما يستحب لمن يتوفى فجأة أن يتصدقوا عنه وقضاء النذور عن الميت:
باب: اگر کسی کو اچانک موت آ جائے تو اس کی طرف سے خیرات کرنا مستحب ہے اور میت کی نذروں کو پوری کرنا۔
20:
باب الإشهاد في الوقف والصدقة:
باب: وقف اور صدقہ پر گواہ بنانا۔
21:
باب قول الله تعالى: {وآتوا اليتامى أموالهم ولا تتبدلوا الخبيث بالطيب ولا تأكلوا أموالهم إلى أموالكم إنه كان حوبا كبيرا وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد
(سورۃ نساء میں)
کہ ”اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو اور ستھرے مال کے عوض گندہ مال مت لو۔ اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے نہ کھاؤ بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو“۔
22:
باب قول الله تعالى: {وابتلوا اليتامى حتى إذا بلغوا النكاح فإن آنستم منهم رشدا فادفعوا إليهم أموالهم ولا تأكلوها إسرافا وبدارا أن يكبروا ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف فإذا دفعتم إليهم أموالهم فأشهدوا عليهم وكفى بالله حسيبا للرجال نصيب مما ترك الوالدان والأقربون وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون مما قل منه أو كثر نصيبا مفروضا}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد
(سورۃ نساء میں)
کہ ”اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو اگر تم ان میں صلاحیت دیکھ لو تو ان کے حوالے ان کا مال کر دو اور ان کے مال کو جلد جلد اسراف سے اور اس خیال سے کہ یہ بڑے ہو جائیں گے مت کھا ڈالو ‘ بلکہ جو شخص مالدار ہو تو یتیم کے مال سے بچا رہے اور جو شخص نادار ہو وہ دستور کے موافق اس میں سے کھا سکتا ہے اور جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو اور اللہ حساب کرنے والا کافی ہے۔ مردوں کے لیے بھی اس ترکہ میں حصہ ہے جس کو والدین اور نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکہ میں حصہ ہے جس کو والدین اور نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں۔ اس
(متروکہ)
میں سے تھوڑا یا زیادہ ضرور ایک حصہ مقرر ہے“۔
22b:
باب وما للوصي أن يعمل في مال اليتيم وما يأكل منه بقدر عمالته:
باب: وصی کے لیے یتیم کے مال میں تجارت اور محنت کرنا درست ہے اور پھر محنت کے مطابق اس میں سے کھا لینا درست ہے۔
23:
باب قول الله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد
(سورۃ نساء میں)
کہ ”بیشک وہ لوگ جو یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں، وہ ضرور دہکتی ہوئی آگ ہی میں جھونک دیئے جائیں گے“۔
24:
باب قول الله تعالى: {ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم والله يعلم المفسد من المصلح ولو شاء الله لأعنتكم إن الله عزيز حكيم}:
باب: اللہ تعالیٰ کا
(سورۃ البقرہ میں)
یہ فرمانا کہ ”آپ
(صلی اللہ علیہ وسلم)
سے لوگ یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ جہاں تک ہو سکے ان کے مالوں میں بہتری کا خیال رکھنا ہی بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ
(ان کے اموال میں)
ساتھ مل جل کر رہو تو
(بہرحال)
وہ بھی تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ سنوارنے والے اور فساد پیدا کرنے والے کو خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں تنگی میں مبتلا کر دیتا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے“۔
25:
باب استخدام اليتيم في السفر والحضر إذا كان صلاحا له ونظر الأم وزوجها لليتيم:
باب: سفر اور حضر میں یتیم سے کام لینا جس میں اس کی بھلائی ہو اور ماں اور سوتیلے باپ کا یتیم پر نظر ڈالنا۔
26:
باب إذا وقف أرضا ولم يبين الحدود فهو جائز وكذلك الصدقة:
باب: اگر کسی نے ایک زمین وقف کی
(جو مشہور و معلوم ہے)
اس کی حدیں بیان نہیں کیں تو یہ جائز ہو گا، اسی طرح ایسی زمین کا صدقہ دینا۔
27:
باب إذا أوقف جماعة أرضا مشاعا فهو جائز:
باب: اگر کئی آدمیوں نے اپنی مشترک زمین جو
«مشاع»
تھی
(تقسیم نہیں ہوتی تھی)
وقف کر دی تو جائز ہے۔
28:
باب الوقف كيف يكتب:
باب: وقف کی سند کیوں کر لکھی جائے۔
29:
باب الوقف للغني والفقير والضيف:
باب: مالدار محتاج اور مہمان سب پر وقف کر سکتا ہے۔
30:
باب وقف الأرض للمسجد:
باب: مسجد کے لیے زمین کا وقف کرنا۔
31:
باب وقف الدواب والكراع والعروض والصامت:
باب: جانور اور گھوڑے اور سامان اور سونا چاندی وقف کرنا۔
32:
باب نفقة القيم للوقف:
باب: وقف کی جائیداد کا اہتمام کرنے والا اپنا خرچ اس میں سے لے سکتا ہے۔
33:
باب إذا وقف أرضا أو بئرا واشترط لنفسه مثل دلاء المسلمين:
باب: کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لیے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کر لی تو یہ بھی درست ہے۔
34:
باب إذا قال الواقف لا نطلب ثمنه إلا إلى الله. فهو جائز:
باب: اگر وقف کرنے والا یوں کہے کہ اس کی قیمت اللہ ہی سے لیں گے تو وقف درست ہو جائے گا۔
35:
باب قول الله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم أو آخران من غيركم إن أنتم ضربتم في الأرض فأصابتكم مصيبة الموت تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله إن ارتبتم لا نشتري به ثمنا ولو كان ذا قربى ولا نكتم شهادة الله إنا إذا لمن الآثمين فإن عثر على أنهما استحقا إثما فآخران يقومان مقامهما من الذين استحق عليهم الأوليان فيقسمان بالله لشهادتنا أحق من شهادتهما وما اعتدينا إنا إذا لمن الظالمين ذلك أدنى أن يأتوا بالشهادة على وجهها أو يخافوا أن ترد أيمان بعد أيمانهم واتقوا الله واسمعوا والله لا يهدي القوم الفاسقين}:
باب: اللہ تعالیٰ کا
(سورۃ المائدہ میں)
یہ فرمانا ”مسلمانو! جب تم میں کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی وصیت کے وقت تم میں سے
(یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے)
دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہئے یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں تم موت کی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو غیر ہی یعنی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی
(میت کے وارثوں)
ان دونوں گواہوں کو عصر کی نماز کے بعد تم روک لو اگر تم کو
(ان کے سچے ہونے میں شبہ ہو)
تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے عوض دنیا کمانا نہیں چاہتے گو جس کے لیے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم اللہ واسطے گواہی چھپائیں گے، ایسا کریں تو ہم اللہ کے قصوروار ہیں، پھر اگر معلوم ہو واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں
(یا جن کو میت کے دو نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو)
وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی، ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہوں گے۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہو گا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو
(راہ پر)
نہیں لگاتا“۔
36:
باب قضاء الوصي ديون الميت بغير محضر من الورثة:
باب: میت پر جو قرضہ ہو وہ اس کا وصی ادا کر سکتا ہے گو دوسرے وارث حاضر نہ ہوں۔
Share this: