احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

107: بَابُ مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعُودَ تَوَضَّأَ
باب: بیوی سے دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ کرنے پر جنبی وضو کر لے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 141
حدثنا هناد، حدثنا حفص بن غياث، عن عاصم الاحول، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا اتى احدكم اهله ثم اراد ان يعود فليتوضا بينهما وضوءا ". قال: وفي الباب عن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حسن صحيح، وهو قول عمر بن الخطاب، وقال به غير واحد من اهل العلم، قالوا: إذا جامع الرجل امراته، ثم اراد ان يعود فليتوضا قبل ان يعود، وابو المتوكل اسمه: علي بن داود، وابو سعيد الخدري اسمه: سعد بن مالك بن سنان.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے،
۲- ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کا قول ہے، اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی کہا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو جماع سے پہلے دوبارہ وضو کرے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض 6 (308)، سنن ابی داود/ الطہارة 86 (220)، سنن النسائی/الطہارة 169 (263)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 100 (587)، (تحفة الأشراف: 4250)، مسند احمد (3/7، 21، 28) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ دھونا ہے، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں «فليتوضأ وضوئه للصلاة» آیا ہے اس کی نفی ہوتی ہے، صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے، جمہور نے «فليتوضأ» میں امر کے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے، لیکن ظاہر یہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے، جمہور کی دلیل عائشہ رضی الله عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ہے «كان للنبي صلى الله عليه وسلم يجامع ثم يعودو لايتوضأ» نیز صحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں «فإنه أنشط للعود» کا ٹکڑا وارد ہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امر کا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (587)

Share this: