احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

108: بَابُ مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمُ الْخَلاَءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلاَءِ
باب: جب نماز کھڑی ہو جائے اور آدمی کو پاخانے کی حاجت ہو تو پہلے پاخانہ جائے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 142
حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابو معاوية، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الارقم، قال: اقيمت الصلاة فاخذ بيد رجل فقدمه وكان إمام قومه، وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا اقيمت الصلاة ووجد احدكم الخلاء فليبدا بالخلاء ". قال: وفي الباب عن عائشة , وابي هريرة , وثوبان , وابي امامة. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن الارقم حسن صحيح، هكذا روى مالك بن انس , ويحيى بن سعيد القطان وغير واحد من الحفاظ، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الارقم، وروى وهيب وغيره، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن رجل، عن عبد الله بن الارقم، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول احمد , وإسحاق، قالا: لا يقوم إلى الصلاة وهو يجد شيئا من الغائط والبول، وقالا: إن دخل في الصلاة فوجد شيئا من ذلك فلا ينصرف ما لم يشغله، وقال بعض اهل العلم: لا باس ان يصلي وبه غائط او بول ما لم يشغله ذلك عن الصلاة.
عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم رضی الله عنہ اپنی قوم کے امام تھے، نماز کھڑی ہوئی تو انہوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب نماز کے لیے اقامت ہو چکی ہو اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو وہ پہلے قضائے حاجت کے لیے جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ثوبان اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ اور تابعین میں کئی لوگوں کا ہے۔ احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آدمی کو پیشاب پاخانہ کی حاجت محسوس ہو تو وہ نماز کے لیے نہ کھڑا ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ نماز میں شامل ہو گیا، پھر نماز کے دوران اس کو اس میں سے کچھ محسوس ہو تو وہ اس وقت تک نماز نہ توڑے جب تک یہ حاجت (نماز سے) اس کی توجہ نہ ہٹا دے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پاخانے یا پیشاب کی حاجت کے ساتھ نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ چیزیں نماز سے اس کی توجہ نہ ہٹا دیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 43 (88)، سنن النسائی/الإمامة 51 (853)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 114 (616)، (تحفة الأشراف: 5141)، موطا امام مالک/ صلاة السفر 17 (49)، مسند احمد (4/35)، سنن الدارمی/الصلاة 137 (1467) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (616)

Share this: