احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

59: بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ
باب: آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 80
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل، سمع جابرا، قال سفيان: وحدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: " خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، فدخل على امراة من الانصار، فذبحت له شاة، فاكل واتته بقناع من رطب، فاكل منه ثم توضا للظهر وصلى ثم انصرف، فاتته بعلالة من علالة الشاة، فاكل ثم صلى العصر ولم يتوضا ". قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق، وابن عباس، وابي هريرة، وابن مسعود، وابي رافع، وام الحكم، وعمرو بن امية، وام عامر، وسويد بن النعمان، وام سلمة. قال ابو عيسى: ولا يصح حديث ابي بكر في هذا الباب من قبل إسناده، إنما رواه حسام بن مصك، عن ابن سيرين، عن ابن عباس، عن ابي بكر الصديق، عن النبي صلى الله عليه وسلم والصحيح، إنما هو عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، هكذا رواه الحفاظ، وروي من غير وجه، عن ابن سيرين، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه عطاء بن يسار، وعكرمة، ومحمد بن عمرو بن عطاء، وعلي بن عبد الله بن عباس، وغير واحد عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكروا فيه عن ابي بكر الصديق، وهذا اصح. قال ابو عيسى: والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، مثل: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق راوا ترك الوضوء مما مست النار، وهذا آخر الامرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان هذا الحديث ناسخ للحديث الاول حديث الوضوء، مما مست النار.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا، آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ تر کھجوروں کا ایک طبق بھی لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہر کے لیے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوئے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کر آئی تو آپ نے (اسے بھی) کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، ابورافع، ام الحکم، عمرو بن امیہ، ام عامر، سوید بن نعمان اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوبکر کی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔
۲- صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں، اور یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا آخری فعل ہے، گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2368) وانظر مسند احمد (3/125، 269) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: سوائے اونٹ کے گوشت کے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے، اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکناہٹ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے، اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھو لینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (185)

Share this: