احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

7: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِشَارَةِ الْيَدِ بِالسَّلاَمِ
باب: ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2695
حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ليس منا من تشبه بغيرنا، لا تشبهوا باليهود , ولا بالنصارى، فإن تسليم اليهود الإشارة بالاصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالاكف " , قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ضعيف , وروى ابن المبارك هذا الحديث، عن ابن لهيعة فلم يرفعه.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے،
۲- ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے، اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8734) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ ابن لہیعہ ‘‘ ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن مبارک کی ان سے جو روایت ہے وہ موقوف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم: 2194)

وضاحت: ۱؎: یعنی یہود و نصاری اور کفار کی کسی بھی فعل میں مشابہت نہ کرو، خصوصا سلام کی ان دو خصلتوں میں ممکن ہے یہ لوگ «السلام عليكم» اور «وعليكم السلام» کہنے کے بجائے صرف اشارہ پر اکتفا کرتے رہے ہوں، زبان سے سلام ادا کرنا انبیاء کی سنت ہے، اس لیے اس سنت کو اپناتے ہوئے عذر کی جگہوں میں اشارہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کسی بہرے کو سلام کرنا وغیرہ، اسی طرح بعض مخصوص حالات میں صرف اشارہ پر اکتفا کرنا بھی صحیح ہے، جیسے گونگے کا سلام کرنا اور حالت نماز میں اشارہ سے جواب دینا وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2194)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2695) إسناده ضعيف ¤ ابن لهيعة مدلس و عنعن (تقدم: 10) وللحديث شواهد ضعيفة عند الطبراني فى الأوسط ( 7376) والنسائي فى الكبري (10172) وغيرهما

Share this: