احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

31: بَابُ: قَضَاءِ الْحَاكِمِ عَلَى الْغَائِبِ إِذَا عَرَفَهُ
باب: حاکم اگر کسی کو پہچانتا ہو تو اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 5422
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا وكيع، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاءت هند إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله , إن ابا سفيان رجل شحيح , ولا ينفق علي وولدي ما يكفيني، افآخذ من ماله ولا يشعر، قال:"خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پر اس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے؟ آپ نے فرمایا: بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الٔاقضیة 4 (1714)، (تحفة الأشراف: 17261)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 95 (2211)، والمظالم 18 (2460)، النفقات 5 (5359)، 9 (5364)، 14 (537)، الأیمان 3 (6641)، الأحکام 14 (7161)، 28 (7180)، سنن ابی داود/البیوع 81 (3532)، سنن ابن ماجہ/التجارات 65 (2293)، مسند احمد (396، 50، 206)، سنن الدارمی/النکاح 54 (2305) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس غائب اور غیر موجود کو پہچانتا ہو، اور مدعی کی صداقت اور مدعی علیہ کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہو جیسا کہ ہند اور ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے معاملہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے، ہر مدعی علیہ کے بارے میں اس طرح فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عام حالات میں مدعی کی گواہی یا قسم اور مدعا علیہ کے بیان سننے کی ضرورت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: