احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

33: بَابُ: مَا يَقْطَعُ الْقَضَاءُ
باب: فیصلہ کی بنیاد پر حاصل ہونے مال کی شرعی حقیقت کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 5424
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا وكيع، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنكم تختصمون إلي وإنما انا بشر، ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فإنما اقضي بينكما على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فإنما اقطع له قطعة من النار".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: 5403 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہو گا؟ نہیں، خود جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہو سکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کر سکتے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: