احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

49: بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمَاءَ لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ
باب: پانی کو کوئی چیز نجس اور ناپاک نہیں کرتی۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 66
حدثنا هناد، والحسن بن علي الخلال , وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو اسامة، عن الوليد بن كثير، عن محمد بن كعب، عن عبيد الله بن عبد الله بن رافع بن خديج، عن ابي سعيد الخدري، قال: قيل: يا رسول الله انتوضا من بئر بضاعة وهي بئر يلقى فيها الحيض ولحوم الكلاب والنتن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الماء طهور لا ينجسه شيء ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وقد جود ابو اسامة هذا الحديث، فلم يرو احد حديث ابي سعيد في بئر بضاعة احسن مما روى ابو اسامة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن ابي سعيد، وفي الباب عن ابن عباس , وعائشة.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ۱؎ سے وضو کریں اور حال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آ کر گرتی ہیں؟۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- بئر بضاعہ والی ابو سعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۳؎،
۳- یہ حدیث کئی اور طریق سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے،
۴- اس باب میں ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 34 (66) سنن النسائی/المیاہ 2 (327، 328) (تحفة الأشراف: 4144) مسند احمد (3/15، 16، 31، 86) (صحیح) (سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ رافع مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: بئر بضاعہ مدینہ کے ایک مشہور کنویں کا نام ہے۔
۲؎: «إن الماء طهور» میں «المائ» میں جو لام ہے وہ عہد کا لام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہو گا کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہو جاتا، جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدار میں ہو (یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو) تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہو گا، چاہے وہ کم ہو، یا چاہے اس کا مزہ اور مہک بدل جائے۔
۳؎: مولف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہتر طریق یہی ابواسامہ والا ہے، تمام طرق سے مل کر یہ حدیث صحیح (لغیرہ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (478) ، صحيح أبي داود (59)

Share this: