احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

47: باب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ
باب: اونٹنی پر سوار ہو تو کیا پڑھے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3446
حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن علي بن ربيعة، قال: شهدت عليا اتي بدابة ليركبها، فلما وضع رجله في الركاب، قال: " بسم الله ثلاثا، فلما استوى على ظهرها قال: الحمد لله، ثم قال: سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين { 13 } وإنا إلى ربنا لمنقلبون { 14 } سورة الزخرف آية 13-14 ثم قال: الحمد لله ثلاثا، والله اكبر ثلاثا، سبحانك إني قد ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا انت "، ثم ضحك، قلت: من اي شيء ضحكت يا امير المؤمنين، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع كما صنعت، ثم ضحك، فقلت: من اي شيء ضحكت يا رسول الله، قال: إن ربك ليعجب من عبده إذا قال: رب اغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب غيرك "، وفي الباب عن ابن عمر رضي الله عنهما. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی الله عنہ کے پاس موجود تھا، انہیں سواری کے لیے ایک چوپایہ دیا گیا، جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں ڈالا تو کہا: «بسم اللہ» میں اللہ کا نام لے کر سوار ہو رہا ہوں اور پھر جب پیٹھ پر جم کر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد للہ» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا ورنہ ہم ایسے نہ تھے جو اسے ناتھ پہنا سکتے، لگام دے سکتے، ہم اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانے والے ہیں، پڑھی، پھر تین بار «الحمد للہ» کہا، اور تین بار «اللہ اکبر» کہا، پھر یہ دعا پڑھی: «سبحانك إني قد ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» پاک ہے تو اے اللہ! بیشک میں نے اپنی جان کے حق میں ظلم و زیادتی کی ہے تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی ظلم معاف کرنے والا نہیں ہے، پھر علی رضی الله عنہ ہنسے، میں نے کہا: امیر المؤمنین کس بات پر آپ ہنسے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا ہے، پھر آپ ہنسے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا رب اپنے بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے اللہ میرے گناہ بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی اور ذات نہیں ہے جو گناہوں کو معاف کر سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجھاد 81 (2602) (تحفة الأشراف: 10248) (صحیح) (سند میں ابواسحاق مختلط راوی ہیں، اس لیے اس کی روایت میں اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود رقم 2342)

وضاحت: ۱؎: یہ صرف اونٹنی کے ساتھ خاص نہیں ہے، کسی بھی سواری پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے، خود باب کی دونوں حدیثوں میں اونٹنی کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ دوسری حدیث میں تو سواری کا لفظ ہے، کسی بھی سواری پر صادق آتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الكلم الطيب (172 / 126) ، صحيح أبي داود (2342)

Share this: