احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

16: باب مَا جَاءَ لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ
باب: مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1412
حدثنا احمد بن منيع , حدثنا هشيم , انبانا مطرف , عن الشعبي، حدثنا ابو جحيفة، قال: قلت لعلي: يا امير المؤمنين هل عندكم سوداء في بيضاء ليس في كتاب الله , قال: " لا , والذي فلق الحبة , وبرا النسمة , ما علمته إلا فهما يعطيه الله رجلا في القرآن وما في الصحيفة " , قلت: وما في الصحيفة ؟ قال: " العقل , وفكاك الاسير , وان لا يقتل مؤمن بكافر ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول: سفيان الثوري , ومالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق , قالوا: لا يقتل مؤمن بكافر , وقال بعض اهل العلم: يقتل المسلم بالمعاهد , والقول الاول اصح.
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا کیا ۱؎: امیر المؤمنین! کیا آپ کے پاس کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریر ہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم و بصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نوازتا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا، میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت، قید یوں کے آزاد کرنے کا ذکر اور آپ کا یہ فرمان ہے: مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کو قتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم 39 (111)، والجہاد 171 (3047)، والدیات 24 (6903)، و 31 (6915)، سنن النسائی/القسامة 13، 14 (4748)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2658)، (تحفة الأشراف: 10311)، و مسند احمد (1/79)، وسنن الدارمی/الدیات 5 (2401) (وانظر ما یأتي برقم 2127) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: علی رضی الله عنہ سے ابوجحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی الله عنہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں، کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی الله عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیا تھا، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
۲؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم عام ہے ہر کافر کے لیے خواہ حربی ہو یا ذمی، لہٰذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو یہ منسوخ ہو گی اور «لايقتل مسلم بكافر» والی روایت اس کے لیے ناسخ ہو گی، کیونکہ آپ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2658)

Share this: