احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

31: باب مِنْهُ
باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2342
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن مطرف، عن ابيه، انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " الهاكم التكاثر سورة التكاثر آية 1 , قال: يقول ابن آدم: مالي مالي، وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فامضيت او اكلت فافنيت، او لبست فابليت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التكاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کر دیا اور اسے آگے چلا دیا ۱؎، اور کھایا اور اسے ختم کر دیا یا پہنا اور اسے پرانا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد 1 (2959)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3643)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ’’ التکاثر ‘‘ (3349) (تحفة الأشراف: 5346)، و مسند احمد (4/24، 26) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کر دیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کر دیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کر دیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: