احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

196: بَابُ: الرَّوَاحِ يَوْمَ عَرَفَةَ
باب: عرفہ کے دن (جلد ہی عرفات کے لیے) روانہ ہونے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 3008
اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: اخبرني اشهب، قال: اخبرني مالك , ان ابن شهاب حدثه، عن سالم بن عبد الله، قال: كتب عبد الملك بن مروان إلى الحجاج بن يوسف يامره ان لا يخالف ابن عمر في امر الحج، فلما كان يوم عرفة، جاءه ابن عمر حين زالت الشمس وانا معه، فصاح عند سرادقه اين هذا ؟ فخرج إليه الحجاج وعليه ملحفة معصفرة، فقال له: ما لك يا ابا عبد الرحمن ؟ قال: الرواح إن كنت تريد السنة، فقال له هذه الساعة، فقال له: نعم، فقال: افيض علي ماء ثم اخرج إليك، فانتظره حتى خرج فسار بيني وبين ابي، فقلت: إن كنت تريد ان تصيب السنة، فاقصر الخطبة وعجل الوقوف، فجعل ينظر إلى ابن عمر كيما يسمع ذلك منه، فلما راى ذلك ابن عمر قال: صدق".
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے (مکہ کے گورنر) حجاج بن یوسف کو لکھا وہ انہیں حکم دے رہے تھے کہ وہ حج کے امور میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہ کریں، تو جب عرفہ کا دن آیا تو سورج ڈھلتے ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کے پاس آئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور اس خیمہ کے پاس انہوں نے آواز دی کہاں ہیں یہ، حجاج نکلے اور ان کے جسم پر کسم میں رنگی ہوئی ایک چادر تھی اس نے ان سے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: اگر سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو چلئے۔ اس نے کہا: ابھی سے؟ انہوں نے کہا: ہاں، حجاج نے کہا: (اچھا) ذرا میں نہا لوں، پھر آپ کے پاس آتا ہوں۔ انہوں نے ان کا انتظار کیا، یہاں تک کہ وہ نکلے تو وہ میرے اور میرے والد کے درمیان ہو کر چلے۔ تو میں نے کہا: اگر آپ سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر دیں اور عرفات میں ٹھہرنے میں جلدی کریں۔ تو وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ ان سے اس بارے میں سنے۔ تو جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ دیکھا تو انہوں نے کہا: اس نے سچ کہا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 87 (1660)، 89 (1662)، 90 (1663)، (تحفة الأشراف: 6916)، موطا امام مالک/الحج 63 (194)، ویأتی عند المؤلف برقم: 3012 (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: