احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: بَابُ: فَرْضِ الزَّكَاةِ
باب: زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1783
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع بن الجراح ، حدثنا زكريا بن إسحاق المكي ، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي ، عن ابي معبد مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم: بعث معاذا إلى اليمن،: فقال: " إنك تاتي قوما اهل كتاب، فادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، فإن هم اطاعوا لذلك، فاعلمهم ان الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوا لذلك، فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة في اموالهم تؤخذ من اغنيائهم فترد في فقرائهم، فإن هم اطاعوا لذلك، فإياك وكرائم اموالهم، واتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله حجاب ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب بھیجا، اور فرمایا: تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں تو پھر ان کے عمدہ اور نفیس مال وصول کرنے سے بچے رہنا ۱؎ (بلکہ زکاۃ میں اوسط مال لینا)، اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، 1 4 (1458)، 63 (1496)، المظالم 10 (2448)، المغازي 60 (4347) التوحید 1 (7371، 7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن ابی داود/الزکاة 4 (1584)، سنن الترمذی/الزکاة 6 (625)، البر 68 (2014)، سنن النسائی/ الزکاة 1 (2437)، 46 (2523)، (تحفة الأشراف: 6511)، مسند احمد (1/233)، سنن الدارمی/الزکاة1 (1655) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: زکاۃ میں صاحب زکاۃ سے عمدہ مال لینا منع ہے، البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے اللہ تعالی کی رضا کے لئے عمدہ جانور چن کر دے تو لے لیا جائے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جائے، تو سب سے پہلے اس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی دعوت دی جائے یعنی سب سے پہلے وہ «لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ» کی شہادت دے، جب وہ توحید و رسالت پر ایمان لا کر «لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ» کو اپنی زبان سے دہرائے تو یہ اس بات کا اعلان ہو گا کہ اس نے دین اسلام قبول کر لیا، ایمان نام ہے دل سے توحید و رسالت اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کے اقرار اور زبان سے اس کے اعتراف اور عملی طور پر اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کا اس لیے توحید و رسالت کے بعد سب سے اہم اور بنیادی رکن اور اسلامی فریضہ یعنی نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے، اس کے بعد زکاۃ ادا کرنے کی جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے، چونکہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں رمضان کے روزوں اور بیت اللہ کا حج ہے، اس لیے ان کی طرف دعوت دینے کا کام دوسرے احکام ومسائل سے پہلے ہو گا، ویسے اسلام لانے کے بعد ہر طرح کے چھوٹے بڑے دینی مسائل کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ» (سورة البقرة:208) ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
۲؎: یعنی وہ فوراً مقبول ہوتی ہے رد نہیں ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: