احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

68: بَابُ مَا جَاءَ فِي سُؤْرِ الْكَلْبِ
باب: کتے کے جھوٹے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 91
حدثنا سوار بن عبد الله العنبري، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت ايوب يحدث، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يغسل الإناء إذا ولغ فيه الكلب سبع مرات اولاهن او اخراهن بالتراب، وإذا ولغت فيه الهرة غسل مرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، ولم يذكر فيه إذا ولغت فيه الهرة غسل مرة. وفي الباب عن عبد الله بن مغفل.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: برتن میں جب کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھویا جائے، پہلی بار یا آخری بار اسے مٹی سے دھویا جائے ۱؎، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک بار دھونے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے،
۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 37 (72)، وانظر أیضا: صحیح البخاری/الوضوء 33 (172)، صحیح مسلم/الطہارة 27 (279)، سنن ابی داود/ الطہارة 37 (71)، سنن النسائی/الطہارة 51 (63)، والمیاہ 7 (336)، و (340)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 31 (363، 364)، (تحفة الأشراف: 14509)، موطا امام مالک/الطہارة 6 (25)، مسند احمد (2/245، 253، 265، 271، 360، 398، 424، 427، 440، 480، 508) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے، احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی الله عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیئے، حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے (تحفۃ الاحوذی، ج ۱ ص ۹۳)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (64 - 66)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
ضعيف ¤ قوله : ” وإذا ولغته فيه الهرة غسل مرة “ مدرج من قول أبي هريرة رضي الله عنه والباقي : مرفوع صحيح .

Share this: