احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

67: بَابٌ في كَرَاهَةِ رَدِّ السَّلاَمِ غَيْرَ مُتَوَضِّئٍ
باب: بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 90
حدثنا نصر بن علي , ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله الزبيري، عن سفيان، عن الضحاك بن عثمان، عن نافع، عن ابن عمر " ان رجلا سلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول، فلم يرد عليه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وإنما يكره هذا عندنا، إذا كان على الغائط والبول، وقد فسر بعض اهل العلم ذلك، وهذا احسن شيء روي في هذا الباب. قال ابو عيسى: وفي الباب عن المهاجر بن قنفذ، وعبد الله بن حنظلة، وعلقمة بن الفغواء، وجابر، والبراء.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۱؎،
۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،
۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض28 (370)، سنن ابی داود/ الطہارة 8 (16)، سنن النسائی/الطہارة 33 (37)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 27 (353)، ویأتی عند المؤلف برقم: 2720 (تحفة الأشراف: 7696) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور یہی راجح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں، اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے، یہ حکم وجوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (54) ، صحيح أبي داود (12 و 13)

Share this: