احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

7: باب مَا جَاءَ فِي تَحْقِيقِ الرَّجْمِ
باب: رجم کے ثبوت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1431
حدثنا احمد بن منيع , حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق , عن داود بن ابي هند , عن سعيد بن المسيب , عن عمر بن الخطاب , قال: " رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورجم ابو بكر , ورجمت , ولولا اني اكره ان ازيد في كتاب الله , لكتبته في المصحف , فإني قد خشيت ان تجيء اقوام فلا يجدونه في كتاب الله , فيكفرون به ". قال: وفي الباب , عن علي , قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح , وروي من غير وجه , عن عمر.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کر دیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10451)، وانظر مسند احمد (1/36، 43) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’ سعید بن مسیب ‘‘ اور ’’ عمر رضی الله عنہ ‘‘ کے درمیان انقطاع ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نكالا من الله ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔
۲؎: سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر رضی الله عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے، عمر رضی الله عنہ نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا، چنانچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا، افسوس صد افسوس! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح التعليق على ابن ماجة، الإرواء (8 / 4 - 5)

Share this: