احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ
باب: غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کراہت​۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 21
حدثنا علي بن حجر , واحمد بن محمد بن موسى مردويه , قالا: اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن اشعث بن عبد الله، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل، ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى ان يبول الرجل في مستحمه، وقال: " إن عامة الوسواس منه ". قال: وفي الباب عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث اشعث بن عبد الله , ويقال له: اشعث الاعمى، وقد كره قوم من اهل العلم البول في المغتسل، وقالوا: عامة الوسواس منه، ورخص فيه بعض اهل العلم، منهم: ابن سيرين، وقيل له: إنه يقال: إن عامة الوسواس منه، فقال: ربنا الله لا شريك له , وقال ابن المبارك: قد وسع في البول في المغتسل إذا جرى فيه الماء. قال ابو عيسى: حدثنا بذلك احمد بن عبدة الآملي، عن حبان، عن عبد الله بن المبارك.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ۱؎ اور فرمایا: زیادہ تر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے،
۲- یہ حدیث غریب ہے، ۲؎ ہم اسے صرف اشعث بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، انہیں اشعث اعمی بھی کہا جاتا ہے،
۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں،
۴- بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے جن میں سے ابن سیرین بھی ہیں، ابن سیرین سے کہا گیا: کہا جاتا ہے کہ اکثر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۳؎، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس میں سے پانی بہ جاتا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 15 (27)، سنن النسائی/الطہارة 32 (36)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 12 (304)، (تحفة الأشراف: 9648)، مسند احمد (5/56) (صحیح) (سند میں حسن بصری مدلس راوی ہیں، جن کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا دوسری روایات سے تقویت پا کر صحیح ہے، اور دوسرا ٹکڑا ضعیف ہے، دیکھئے: ضعیف ابی داود رقم: 6، وصحیح ابی داود رقم: 22)

وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت ایسے غسل خانوں کے سلسلے میں ہے جن میں پیشاب زمین میں جذب ہو جاتا ہے، یا رک جاتا ہے، پختہ غسل خانے جن میں پیشاب پانی پڑتے ہی بہہ جاتا ہے ان میں یہ ممانعت نہیں (ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ رقم: ۳۰۴)۔
۲؎: امام ترمذی کسی حدیث کے بارے میں جب لفظ غریب کہتے ہیں تو ایسی حدیثیں اکثر ضعیف ہوتی ہیں، ایسی ساری احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے (ضعیف ابی داود رقم ۶) البتہ غسل خانہ میں پیشاب کی ممانعت سے متعلق پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
۳؎: مطلب یہ ہے جو بھی وسوسے پیدا ہوتے ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، غسل خانوں کے پیشاب کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح (إلا الشطر الثانى منه) ، ابن ماجة (304)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / د 27 ‘ ن 32 ‘ جه 304 ¤ الحسن البصري ملس وعنعن (د 17)

Share this: