احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: بَابُ مَا جَاءَ فِي الاِسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ
باب: پانی سے استنجاء کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 19
حدثنا قتيبة , ومحمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب البصري , قالا: حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن معاذة، عن عائشة، قالت: " مرن ازواجكن ان يستطيبوا بالماء فإني استحييهم، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يفعله ". وفي الباب عن جرير بن عبد الله البجلي , وانس , وابي هريرة. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وعليه العمل عند اهل العلم: يختارون الاستنجاء بالماء، وإن كان الاستنجاء بالحجارة يجزئ عندهم، فإنهم استحبوا الاستنجاء بالماء وراوه افضل، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے (یہ بات کہتے) شرما رہی ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی، انس، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے ۱؎، وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسند کرتے ہیں اگرچہ پتھر سے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھر بھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة 41 (46) (تحفة الأشراف: 17970) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہاں بار بار آپ احادیث میں یہ جملہ پڑھ رہے ہیں: اسی پر اہل علم کا عمل ہے، تو اہل علم سے مراد محدثین فقہاء اور قرآن وسنت کا صحیح فہم رکھنے والے لوگ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (42)

Share this: