احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

33: باب مَا جَاءَ فِي التَّثْوِيبِ فِي الْفَجْرِ
باب: فجر میں تثویب کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 198
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا ابو إسرائيل، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن بلال، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تثوبن في شيء من الصلوات إلا في صلاة الفجر ". قال: وفي الباب عن ابي محذورة. قال ابو عيسى: حديث بلال لا نعرفه إلا من حديث ابي إسرائيل الملائي، وابو إسرائيل لم يسمع هذا الحديث من الحكم بن عتيبة، قال: إنما رواه عن الحسن بن عمارة، عن الحكم بن عتيبة، وابو إسرائيل اسمه: إسماعيل بن ابي إسحاق، وليس هو بذاك القوي عند اهل الحديث، وقد اختلف اهل العلم في تفسير التثويب، فقال بعضهم: يقول في اذان الفجر الصلاة خير من النوم، وهو قول ابن المبارك , واحمد، وقال إسحاق في التثويب غير هذا، قال: التثويب المكروه هو شيء احدثه الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم إذا اذن المؤذن فاستبطا القوم، قال: بين الاذان والإقامة قد قامت الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح، قال: وهذا الذي قال إسحاق: هو التثويب الذي قد كرهه اهل العلم، والذي احدثوه بعد النبي صلى الله عليه وسلم، والذي فسر ابن المبارك , واحمد ان التثويب ان يقول المؤذن في اذان الفجر: الصلاة خير من النوم، وهو قول صحيح، ويقال له: التثويب ايضا، وهو الذي اختاره اهل العلم، وراوه وروي عن عبد الله بن عمر انه كان يقول في صلاة الفجر: الصلاة خير من النوم، وروي عن مجاهد، قال: دخلت مع عبد الله بن عمر مسجدا، وقد اذن فيه ونحن نريد ان نصلي فيه فثوب المؤذن، فخرج عبد الله بن عمر من المسجد، وقال: اخرج بنا من عند هذا المبتدع ولم يصل فيه، قال: وإنما كره عبد الله التثويب الذي احدثه الناس بعد.
بلال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے سوا کسی بھی نماز میں تثویب ۱؎ نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابو محذورہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- بلال رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف ابواسرائیل ملائی کی سند سے جانتے ہیں۔ اور ابواسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی۔ بلکہ انہوں نے اسے حسن بن عمارہ سے اور حسن نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے،
۳- ابواسرائیل کا نام اسماعیل بن ابی اسحاق ہے، اور وہ اہل الحدیث کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں،
۴- اہل علم کا تثویب کی تفسیر کے سلسلے میں اختلاف ہے ؛ بعض کہتے ہیں: تثویب فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» نماز نیند سے بہتر ہے کہنے کا نام ہے ابن مبارک اور احمد کا یہی قول ہے، اسحاق کہتے ہیں: تثویب اس کے علاوہ ہے، تثویب مکروہ ہے، یہ ایسی چیز ہے جسے لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد کی ہے، جب مؤذن اذان دیتا اور لوگ تاخیر کرتے تو وہ اذان اور اقامت کے درمیان: «قد قامت الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح» کہتا،
۵- اور جو اسحاق بن راہویہ نے کہا ہے دراصل یہی وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے ناپسند کیا ہے اور اسی کو لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد کیا ہے، ابن مبارک اور احمد کی جو تفسیر ہے کہ تثویب یہ ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں: «الصلاة خير من النوم» کہے تو یہ کہنا صحیح ہے، اسے بھی تثویب کہا جاتا ہے اور یہ وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے پسند کیا اور درست جانا ہے، عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ فجر میں «الصلاة خير من النوم» کہتے تھے، اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ ایک مسجد میں داخل ہوا جس میں اذان دی جا چکی تھی۔ ہم اس میں نماز پڑھنا چاہ رہے تھے۔ اتنے میں مؤذن نے تثویب کی، تو عبداللہ بن عمر مسجد سے باہر نکلے اور کہا: اس بدعتی کے پاس سے ہمارے ساتھ نکل چلو، اور اس مسجد میں انہوں نے نماز نہیں پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے اس تثویب کو جسے لوگوں نے بعد میں ایجاد کر لیا تھا ناپسند کیا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (715)، (تحفة الأشراف: 2042)، مسند احمد (6/14، 15) (ضعیف) (عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا سماع بلال رضی الله عنہ سے نہیں ہے، نیز ابو اسرائیل ملائی کو وہم ہو جایا کرتا تھا اس لیے کبھی کہتے ہیں کہ حدیث میں نے حکم بن عتیبہ سے سنی ہے، اور کبھی کہتے ہیں کہ حسن بن عمارة کے واسطہ سے حکم سے سنی ہے)

وضاحت: ۱؎: یہاں تثویب سے مراد فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (715) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (151) ، الإرواء (235) ، المشكاة (646) ، ضعيف الجامع - الطبعة الثانية المرتبة - برقم (6191) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 715 ¤ أبو إسرائيل الملائى : إسماعيل بن خليفة ضعيف ضعفه الجمهور من جهة حفظه (تحفة الأقرياء في تحقيق كتاب الضعفاء للبخاري : 16)

Share this: