احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

32: باب مَا جَاءَ فِي إِدْخَالِ الإِصْبَعِ فِي الأُذُنِ عِنْدَ الأَذَانِ
باب: اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 197
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان الثوري، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: رايت بلالا يؤذن ويدور ويتبع فاه ها هنا وههنا وإصبعاه في اذنيه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة له حمراء اراه قال: " من ادم " , فخرج بلال بين يديه بالعنزة فركزها بالبطحاء، فصلى إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، يمر بين يديه الكلب والحمار وعليه حلة حمراء كاني انظر إلى بريق ساقيه. قال سفيان: نراه حبرة. قال ابو عيسى: حديث ابي جحيفة حسن صحيح، وعليه العمل عند اهل العلم يستحبون ان يدخل المؤذن إصبعيه في اذنيه في الاذان، وقال بعض اهل العلم: وفي الإقامة ايضا يدخل إصبعيه في اذنيه، وهو قول الاوزاعي، وابو جحيفة اسمه: وهب بن عبد الله السوائي.
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ سفیان کہتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس چیز کو مستحب سمجھتے ہیں کہ مؤذن اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے،
۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا، یہی اوزاعی کا قول ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة 47 (503)، سنن ابی داود/ الصلاة 34 (520)، سنن النسائی/الأذان 13 (644)، والزینة 23 (5380)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (711)، (تحفة الأشراف: 1186)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234)، (وراجع أیضا ماعند صحیح البخاری/الأذان 15 (634) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے «فلما بلغ حي على الصلاة حي على الفلاح لوّي عنقه يمينا وشمالاً ولم يستدر» یعنی: بلال جب «حي الصلاة حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔
۲؎: یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیزے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں «ورأيت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة» ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانورنیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔
۳؎: اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں، رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (711)

Share this: