احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

42: بَابٌ في الْوُضُوءِ بِالْمُدِّ
باب: ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 56
وحدثنا احمد بن منيع , وعلي بن حجر , قالا: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن ابي ريحانة، عن سفينة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا بالمد ويغتسل بالصاع ". قال: وفي الباب عن عائشة , وجابر , وانس بن مالك. قال ابو عيسى: حديث سفينة، حسن صحيح، وابو ريحانة اسمه: عبد الله بن مطر، وهكذا راى بعض اهل العلم: الوضوء بالمد والغسل بالصاع , وقال الشافعي , واحمد , وإسحاق: ليس معنى هذا الحديث على التوقي انه لا يجوز اكثر منه ولا اقل منه وهو قدر ما يكفي.
سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مد پانی سے وضو کیا جائے اور ایک صاع پانی سے غسل، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصود تحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یا کم جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدار ایسی ہے جو کافی ہوتی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض10 (326) سنن ابن ماجہ/الطہارة 1 (267) (تحفة الأشراف: 4479) مسند احمد (5/222) سنن الدارمی/الطہارة 23 (715) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔
۲؎: مسلم میں ایک «فرق» پانی سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے، «فرق» ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک «فرق» پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (267)

Share this: