احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

110: باب مِنْهُ أَيْضًا
باب: سلام پھیرنے سے متعلق ایک اور باب۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 296
حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري، حدثنا عمرو بن ابي سلمة ابو حفص التنيسي، عن زهير بن محمد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يسلم في الصلاة تسليمة واحدة تلقاء وجهه يميل إلى الشق الايمن شيئا " قال: وفي الباب عن سهل بن سعد، قال ابو عيسى: وحديث عائشة لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، قال محمد بن إسماعيل زهير بن محمد: اهل الشام يروون عنه مناكير ورواية اهل العراق عنه اشبه واصح، قال محمد: وقال احمد بن حنبل: كان زهير بن محمد الذي كان وقع عندهم ليس هو هذا الذي يروى عنه بالعراق كانه رجل آخر قلبوا اسمه. قال ابو عيسى: وقد قال به: بعض اهل العلم في التسليم في الصلاة، واصح الروايات عن النبي صلى الله عليه وسلم تسليمتان، وعليه اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، وراى قوم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم تسليمة واحدة في المكتوبة، قال الشافعي: إن شاء سلم تسليمة واحدة وإن شاء سلم تسليمتين.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے چہرے کے سامنے داہنی طرف تھوڑا سا مائل ہو کر ایک سلام پھیرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہیر بن محمد سے اہل شام منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان سے مروی اہل عراق کی روایتیں زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ شاید زہیر بن محمد جو اہل شام کے یہاں گئے تھے، وہ نہیں جن سے عراق میں روایت کی جاتی ہے، کوئی دوسرے آدمی ہیں جن کا نام ان لوگوں نے بدل دیا ہے،
۴- اس باب میں سہل بن سعد رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۵- نماز میں سلام پھیرنے کے سلسلے میں بعض اہل علم نے یہی کہا ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی سب سے صحیح روایت دو سلاموں والی ہے ۱؎، صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ البتہ صحابہ کرام اور ان کے علاوہ میں سے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ فرض نماز میں صرف ایک سلام ہے، شافعی کہتے ہیں: چاہے تو صرف ایک سلام پھیرے اور چاہے تو دو سلام پھیرے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 29 (919)، (تحفة الأشراف: 16895) مسند احمد (6/236) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور اسی پر امت کی اکثریت کا تعامل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (919)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 919 ¤ عمرو بن أبي سامة شامي وقال البخاري في ترجمة زهير بن محمد : ” روى عنه أهل الشام أحاديث مناكير “ (التاريخ الكبير 427/3) وانظر ضعیف سنن أبي داود (4877)

Share this: