احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

62: بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
باب: عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 85
حدثنا هناد، حدثنا ملازم بن عمرو، عن عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق بن علي هو الحنفي، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " وهل هو إلا مضغة منه ؟ او بضعة منه ؟ ". قال: وفي الباب عن ابي امامة. قال ابو عيسى: وقد روي عن غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وبعض التابعين، انهم لم يروا الوضوء من مس الذكر، وهو قول اهل الكوفة، وابن المبارك، وهذا الحديث احسن شيء روي في هذا الباب، وقد روى هذا الحديث ايوب بن عتبة، ومحمد بن جابر، عن قيس بن طلق، عن ابيه، وقد تكلم بعض اهل الحديث في محمد بن جابر , وايوب بن عتبة، وحديث ملازم بن عمرو، عن عبد الله بن بدر، اصح واحسن.
طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوامامہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو واجب نہیں، اور یہی اہل کوفہ اور ابن مبارک کا قول ہے،
۳- اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے،
۴- ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کو قیس بن طلق نے «عن أبیہ» سے روایت کیا ہے۔ بعض محدثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے،
۵- ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے، سب سے صحیح اور اچھی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 71 (182)، سنن النسائی/الطہارة 119 (165)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 64 (483) (تحفة الأشراف: 5023) مسند احمد (4/22، 23) (صحیح) (سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثر علماء نے توثیق کی ہے)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ رضی الله عنہا کی روایت سے پہلے کی ہے، اس لیے طلق رضی الله عنہ کی حدیث منسوخ ہے، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہو گی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل (رکاوٹ) کے چھونے کے بارے میں ہے، اور طلق کی حدیث بغیر کسی حائل (پردہ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔
۲؎: طلق بن علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (483)

Share this: