احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

64: بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ
باب: قے اور نکسیر سے وضو کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 87
حدثنا ابو عبيدة بن ابي السفر وهو احمد بن عبد الله الهمداني الكوفي، وإسحاق بن منصور , قال ابو عبيدة: حدثنا , وقال إسحاق: اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثني ابي، عن حسين المعلم، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعي، عن يعيش بن الوليد المخزومي، عن ابيه، عن معدان بن ابي طلحة، عن ابي الدرداء، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قاء، فافطر، فتوضا، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق، فذكرت ذلك له، فقال: صدق انا صببت له وضوءه ". قال ابو عيسى: وقال إسحاق بن منصور: معدان بن طلحة. قال ابو عيسى: وابن ابي طلحة اصح. قال ابو عيسى: وقد راى غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم من التابعين، الوضوء من القيء والرعاف , وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، واحمد، وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: ليس في القيء والرعاف وضوء , وهو قول مالك، والشافعي، وقد جود حسين المعلم هذا الحديث، وحديث حسين اصح شيء في هذا الباب، وروى معمر هذا الحديث، عن يحيى بن ابي كثير فاخطا فيه، فقال: عن يعيش بن الوليد، عن خالد بن معدان، عن ابي الدرداء، ولم يذكر فيه الاوزاعي، وقال: عن خالد بن معدان، وإنما هو: معدان بن ابي طلحة.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا) ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا یہ مالک اور شافعی کا قول ہے ۲؎،
۲- حدیث کے طرق کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصوم 32 (2391)، (تحفة الأشراف: 10964)، مسند احمد (5/195، و6/443)، سنن الدارمی/الصوم 24 (1769)، (ولفظ الجمیع ’’ قاء فأفطر ‘‘) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے: ایک یہ کہ: حدیث میں لفظ یوں ہو «قاء فتوضأ» قے کی تو وضو کیا جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں «قاء فأفطر» قے کی تو روزہ توڑ لیا ہے «فأفطر» کے بعد بھی «فتوضأ» کا لفظ نہیں ہے، یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے، یعنی «قاء فأفطرفتوضأ» یعنی قے کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ قے کے بعد آدمی کمزور ہو جاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طور پر وضو کر لیتا ہے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر «قاء فتوضأ» کا لفظ ہی محفوظ ہو تو «فتوضأ» کی فاء سبب کے لیے ہو، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اس لیے وضو کیا اور یہ بات متعین نہیں ہے، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اور اس کے بعد وضو کیا۔
۲؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آ کر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو یقیناً رہا ہو گا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے دیا تھا، اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (111)

Share this: