احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

18: باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، فِي بَيْعَةٍ
باب: ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1231
حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ". وفي الباب: عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد فسر بعض اهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة، ان يقول: ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على احد البيعين، فإذا فارقه على احدهما فلا باس، إذا كانت العقدة على احد منهما، قال الشافعي: ومن معنى نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ان يقول: ابيعك داري هذه بكذا، على ان تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك، وجبت لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما، على ما وقعت عليه صفقته.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو،
۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15050) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع 73 (4636)، موطا امام مالک/البیوع 33 (72) (بلاغا) مسند احمد (2/432، 475، 503) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔
۲؎: اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2868) ، الإرواء (5 / 149) ، أحاديث البيوع

Share this: