احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْغَرَرِ
باب: بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1230
حدثنا ابو كريب، انبانا ابو اسامة، عن عبيد الله بن عمر، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر، وبيع الحصاة ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وابن عباس، وابي سعيد، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم كرهوا بيع الغرر، قال الشافعي: ومن بيوع الغرر بيع السمك في الماء، وبيع العبد الآبق، وبيع الطير في السماء ونحو ذلك من البيوع، ومعنى بيع الحصاة: ان يقول البائع للمشتري: إذا نبذت إليك بالحصاة، فقد وجب البيع فيما بيني وبينك وهذا شبيه ببيع المنابذة، وكان هذا من بيوع اهل الجاهلية.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں،
۴- شافعی کہتے ہیں: مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، بھاگے ہوئے غلام کی بیع، آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع، بیع غرر کی قبیل سے ہیں،
۵- اور بیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اور تیرے درمیان میں بیع واجب ہو گئی۔ یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔ اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع 2 (1513)، سنن ابی داود/ البیوع 25 (3376)، سنن النسائی/البیوع 27 (4522)، سنن ابن ماجہ/التجارات 23 (2194)، (تحفة الأشراف: 13794)، مسند احمد (2/250، 436، 439، 496) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (2/376) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎: بیع غرر: معدوم و مجہول کی بیع ہے، یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2194)

Share this: