احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

29: بَاب اجْلِسْ حَيْثُ انْتَهَى بِكَ الْمَجْلِسُ
باب: مجلس میں جہاں پہنچو وہیں بیٹھ جاؤ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2724
حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ابي واقد الليثي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في المسجد والناس معه، إذ اقبل ثلاثة نفر فاقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذهب واحد، فلما وقفا على رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما، فاما احدهما فراى فرجة في الحلقة فجلس فيها، واما الآخر فجلس خلفهم، واما الآخر فادبر ذاهبا، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم عن النفر الثلاثة ؟ اما احدهم فاوى إلى الله فاواه الله، واما الآخر فاستحيا فاستحيا الله منه، واما الآخر فاعرض فاعرض الله عنه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو واقد الليثي اسمه: الحارث بن عوف، وابو مرة مولى ام هانئ بنت ابي طالب واسمه: يزيد ويقال: مولى عقيل بن ابي طالب.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ آئے، اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر رکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں (گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلا ہی گیا تھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہا تیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا، چنانچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیر لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابو مرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام یزید ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم 8 (66)، والصلاة 84 (474)، صحیح مسلم/السلام 10 (2176) (تحفة الأشراف: 15514)، وط/السلام 3 (4)، و مسند احمد (5/219) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: