احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

150: باب مَا جَاءَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ
باب: شام کا کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 353
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن انس يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا حضر العشاء واقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء " قال: وفي الباب عن عائشة وابن عمر , وسلمة بن الاكوع وام سلمة، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وعليه العمل عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر , وابن عمر، وبه يقول احمد , وإسحاق يقولان: يبدا بالعشاء وإن فاتته الصلاة في الجماعة. قال ابو عيسى: سمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول في هذا الحديث: يبدا بالعشاء إذا كان طعاما يخاف فساده والذي ذهب إليه بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم اشبه بالاتباع، وإنما ارادوا ان لا يقوم الرجل إلى الصلاة وقلبه مشغول بسبب شيء، وقد روي عن ابن عباس، انه قال: لا نقوم إلى الصلاة وفي انفسنا شيء.
انس رضی الله عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کر دی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر، عمر اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی ہیں، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھانا کھائے اگرچہ جماعت چھوٹ جائے۔
۴- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو، لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں نماز میں نہ کھڑا ہو کہ اس کا دل کسی چیز کے سبب مشغول ہو، اور ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ہم نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان 42 (672)، الأطعمة 58 (5463)، صحیح مسلم/المساجد 6 (557)، سنن النسائی/الإمامة 51 (854)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 34 (933)، (تحفة الأشراف: 1486)، مسند احمد (3/100، 110، 161، 231، 238، 249)، سنن الدارمی/الصلاة 58 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے نماز سے مغرب کی نماز مراد لی ہے اور اس میں وارد حکم کو صائم کے لیے خاص مانا ہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظر اسے عموم پر محمول کیا جائے، خواہ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (933)

Share this: