12: باب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
باب: ذمیوں سے سلام کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2701
حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: إن رهطا من اليهود دخلوا على النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: السام عليك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عليكم "، فقالت عائشة: بل عليكم السام واللعنة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا عائشة " إن الله يحب الرفق في الامر كله " , قالت عائشة: الم تسمع ما قالوا ؟ قال: " قد قلت: عليكم " , وفي الباب عن ابي بصرة الغفاري، وابن عمر، وانس، وابي عبد الرحمن الجهني , قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا:
«السّام عليك» ”تم پر موت و ہلاکت آئے
“، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
«عليكم» ۱؎، عائشہ نے
(اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا
«بل عليكم السام واللعنة» ”بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو
“۔ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے
“، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔ آپ نے فرمایا:
”تبھی تو میں نے
«عليكم» کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو بصرہ غفاری، ابن عمر، انس اور ابوعبدالرحمٰن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الستتابة المرتدین 4 (6927)، صحیح مسلم/السلام 4 (2165) (تحفة الأشراف: 16437)، و مسند احمد (6/199) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا آپ نے «عليكم» کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (764)