احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

84: بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ
باب: کپڑے میں مذی لگ جانے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 115
حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، عن سعيد بن عبيد هو ابن السباق، عن ابيه، عن سهل بن حنيف، قال: كنت القى من المذي شدة وعناء فكنت اكثر منه الغسل، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم وسالته عنه، فقال: " إنما يجزئك من ذلك الوضوء " , فقلت: يا رسول الله كيف بما يصيب ثوبي منه ؟ قال: " يكفيك ان تاخذ كفا من ماء فتنضح به ثوبك حيث ترى انه اصاب منه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ولا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق في المذي مثل هذا، وقد اختلف اهل العلم في المذي يصيب الثوب، فقال بعضهم: لا يجزئ إلا الغسل، وهو قول الشافعي , وإسحاق، وقال بعضهم: يجزئه النضح، وقال احمد: ارجو ان يجزئه النضح بالماء.
سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمد بن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں،
۳- کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا۔ امام احمد کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 83 (210)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 70 (506)، (تحفة الأشراف: 4664)، مسند احمد (3/485)، سنن الدارمی/الطہارة 49 (750) (حسن)

وضاحت: ۱؎: اور یہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں «نضح» چھڑکنا ہی آیا ہے، ہاں بطور نظافت کوئی دھو لے تو یہ اس کی اپنی پسند ہے، واجب نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (506)

Share this: