احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

159: باب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں اشارہ کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 367
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن نابل صاحب العباء، عن ابن عمر، عن صهيب، قال: " مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فسلمت عليه، فرد إلي إشارة، وقال: لا اعلم، إلا انه قال: إشارة بإصبعه "، قال: وفي الباب عن بلال , وابي هريرة , وانس , وعائشة.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر) کہتے ہیں کہ میرا یہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا: آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صہیب کی حدیث حسن ہے ۲؎،
۲- اس باب میں بلال، ابوہریرہ، انس، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 170 (925)، سنن النسائی/السہو 6 (1178)، (تحفة الأشراف: 4966)، مسند احمد (4/332)، سنن الدارمی/الصلاة 94 (1401) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہور کی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ ہو گیا، لیکن یہ صحیح نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز میں کلام کرنا جائز تھا تو لوگ سلام کا جواب بھی وعلیکم السلام کہہ کر دیتے تھے، پھر جب نماز میں کلام کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا تو وعلیکم السلام کہہ کر سلام کا جواب دینا بھی ناجائز ہو گیا اور اس کے بدلے اشارے سے سلام کا جواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپر تھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
۲؎: اگلی حدیث نمبر ۳۶۸ کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (858)

Share this: