احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ
باب: تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2158
حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف، ان عثمان بن عفان اشرف يوم الدار، فقال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: زنا بعد إحصان، او ارتداد بعد إسلام، او قتل نفس بغير حق، فقتل به "، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام، ولا ارتددت منذ بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا قتلت النفس التي حرم الله، فبم تقتلونني ؟، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وعائشة، وابن عباس، وهذا حديث حسن، ورواه حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد فرفعه، وروى يحيى بن سعيد القطان، وغير واحد، عن يحيى بن سعيد هذا الحديث فاوقفوه ولم يرفعوه، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عثمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا.
‏‏‏‏ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع،
۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الدیات 3 (4502)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533) (تحفة الأشراف: 9782)، و مسند احمد (1/61، 62، 65، 70) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2533)

Share this: