احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: باب مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالْخَوَاتِيمِ
باب: خاتمہ والے اعمال معتبر ہونے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2137
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الله بن مسعود، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق: " إن احدكم يجمع خلقه في بطن امه في اربعين يوما، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يرسل الله إليه الملك فينفخ فيه الروح، ويؤمر باربع يكتب: رزقه، واجله، وعمله، وشقي او سعيد، فوالذي لا إله غيره إن احدكم ليعمل بعمل اهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، ثم يسبق عليه الكتاب، فيختم له بعمل اهل النار فيدخلها، وإن احدكم ليعمل بعمل اهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، ثم يسبق عليه الكتاب، فيختم له بعمل اهل الجنة فيدخلها "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا الاعمش، حدثنا زيد بن وهب، عن عبد الله بن مسعود، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر مثله، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روى شعبة والثوري، عن الاعمش، نحوه، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وانس، وسمعت احمد بن الحسن، قال: سمعت احمد بن حنبل، يقول: ما رايت بعيني مثل يحيى بن سعيد القطان.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ۱؎، تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخت)، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3208)، وأحادیث الأنبیاء 1 (3393)، صحیح مسلم/القدر 1 (2643)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4708)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (76) (تحفة الأشراف: 9228)، و مسند احمد (1/382، 414) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی سچے ہیں اور سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (76)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 2137M
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن زيد نحوه.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، شعبہ اور ثوری نے بھی اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (76)

Share this: