احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: باب مَا جَاءَ فِي الشَّقَاءِ وَالسَّعَادَةِ
باب: اچھی اور بری تقدیر (قسمت) کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2135
حدثنا بندار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن عاصم بن عبيد الله، قال: سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابيه، قال: قال عمر: يا رسول الله، ارايت ما نعمل فيه امر مبتدع او مبتدا او فيما قد فرغ منه، فقال: " فيما قد فرغ منه يا ابن الخطاب، وكل ميسر، اما من كان من اهل السعادة فإنه يعمل للسعادة، واما من كان من اهل الشقاء فإنه يعمل للشقاء "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وحذيفة بن اسيد، وانس، وعمران بن حصين، وهذا حديث حسن صحيح.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6764) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جو عمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتا ہے؟ یا وہ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (161 - 167)

Share this: