احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: باب مَا جَاءَ فِي الْخُلْعِ
باب: خلع کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1185
حدثنا محمود بن غيلان، انبانا الفضل بن موسى، عن سفيان، انبانا محمد بن عبد الرحمن وهو مولى آل طلحة، عن سليمان بن يسار، عن الربيع بنت معوذ بن عفراء، انها اختلعت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، " فامرها النبي صلى الله عليه وسلم، او امرت ان تعتد بحيضة ".
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلع لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15835) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2058)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 1185M
انبانا محمد بن عبد الرحيم البغدادي، انبانا علي بن بحر، انبانا هشام بن يوسف، عن معمر، عن عمرو بن مسلم، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان امراة ثابت بن قيس، اختلعت من زوجها على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، " فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تعتد بحيضة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، واختلف اهل العلم في عدة المختلعة، فقال: اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إن عدة المختلعة عدة المطلقة ثلاث حيض، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة، وبه يقول احمد، وإسحاق، قال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إن عدة المختلعة حيضة، قال إسحاق: وإن ذهب ذاهب إلى هذا فهو مذهب قوي.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حیض عدت گزار نے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- «مختلعہ» (خلع لینے والی عورت) کی عدت کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی ہے، یعنی تین حیض۔ یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت ایک حیض ہے،
۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس مذہب کو اختیار کرے تو یہ قوی مذہب ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15835) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: «خلع»: «خلع الثوب» سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لباس اتارنے کے ہیں، شرعی اصطلاح شرع میں عورت کا مہر میں دیا ہوا مال واپس دے کر شوہر سے علاحدگی اختیار کر لینے کو «خلع» کہتے ہیں۔
۲؎: باب کی حدیث اسی قول کی تائید کرتی ہے کہ «خلع» طلاق نہیں فسخ ہے اور «مختلعہ» کی عدت ایک حیض ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ «خلع» فسخ نہیں طلاق ہے وہ کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی عدت ہے۔ راجح قول پہلا ہی ہے جو ان دونوں حدیثوں کے موافق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2058)

Share this: