احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

43: باب مَا جَاءَ فِي دُخُولِ الْحَمَّامِ
باب: غسل خانہ میں جانے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2801
حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا مصعب بن المقدام، عن الحسن بن صالح، عن ليث بن ابي سليم، عن طاوس، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام بغير إزار، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل حليلته الحمام، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة يدار عليها بالخمر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث طاوس، عن جابر إلا من هذا الوجه، قال محمد بن إسماعيل، ليث بن ابي سليم صدوق، وربما يهم في الشيء، قال محمد بن إسماعيل، وقال احمد بن حنبل، ليث لا يفرح بحديثه، كان ليث يرفع اشياء لا يرفعها غيره فلذلك ضعفوه.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ تہہ بند باندھے بغیر غسل خانہ (حمام) میں داخل نہ ہو، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی بیوی کو غسل خانہ (حمام) میں نہ بھیجے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف اس سند سے جانتے ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں، لیکن بسا اوقات وہ وہم کر جاتے ہیں،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں: لیث کی حدیث سے دل خوش نہیں ہوتا۔ لیث بعض ایسی حدیثوں کو مرفوع بیان کر دیتے تھے جسے دوسرے لوگ مرفوع نہیں کرتے تھے۔ انہیں وجوہات سے لوگوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الغسل 2 (401) (بعضہ) (تحفة الأشراف: 2284)، و مسند احمد (3/339) (حسن) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، الإروائ: 1949، غایة المرام 190)

وضاحت: ۱؎: یہ حمامات عمومی غسل خانے ہوا کرتے تھے، جس میں مرد اور عورتیں سب کے سب ننگے نہاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو تہہ بند باندھ کر نہانے کی اجازت دی، جب کہ عورتوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ مجلس جہاں نشہ آور اور حرام چیزوں کا دور چل رہا ہو اس میں شریک ہونا درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (1 / 88 - 89) ، الإرواء (1949) ، غاية المرام (190)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2801) إسناده ضعيف ¤ ليث بن أبى سليم: ضعيف (تقدم:218)

Share this: