احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

72: باب مَا جَاءَ فِي التَّأْمِينِ
باب: آمین کہنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 248
حدثنا بندار محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، قالا: حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن حجر بن عنبس، عن وائل بن حجر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم " قرا: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 فقال: آمين ومد بها صوته ". قال: وفي الباب عن علي , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث وائل بن حجر حديث حسن، وبه يقول: غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم يرون ان الرجل يرفع صوته بالتامين ولا يخفيها، وبه يقول: الشافعي , واحمد , وإسحاق وروى شعبة هذا الحديث، عن سلمة بن كهيل، عن حجر ابي العنبس، عن علقمة بن وائل، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قرا: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 فقال: " آمين " وخفض بها صوته، قال ابو عيسى: وسمعت محمدا، يقول: حديث سفيان اصح من حديث شعبة في هذا واخطا شعبة في مواضع من هذا الحديث، فقال: عن حجر ابي العنبس وإنما هو حجر بن عنبس ويكنى ابا السكن وزاد فيه، عن علقمة بن وائل وليس فيه عن علقمة، وإنما هو عن حجر بن عنبس، عن وائل بن حجر، وقال: وخفض بها صوته، وإنما هو ومد بها صوته. قال ابو عيسى: وسالت ابا زرعة عن هذا الحديث، فقال: حديث سفيان في هذا اصح من حديث شعبة، قال: وروى العلاء بن صالح الاسدي، عن سلمة بن كهيل نحو رواية سفيان.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھ کر، آمین کہتے سنا، اور اس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی (یعنی بلند کی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- وائل بن حجر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں علی اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی آمین کہنے میں اپنی آواز بلند کرے اسے پست نہ رکھے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
(شاذ) ۴- شعبہ نے یہ حدیث بطریق «سلمة بن كهيل، عن حُجر أبي العنبس، عن علقمة بن وائل، عن أبيه وائل» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھا تو آپ نے آمین کہی اور اپنی آواز پست کی،
۵- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث میں کئی مقامات پر غلطیاں کی ہیں ۱؎ انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے، جب کہ وہ حجر بن عنبس ہیں اور ان کی کنیت ابوالسکن ہے اور اس میں انہوں نے «عن علقمة بن وائل» کا واسطہ بڑھا دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے، حجر بن عنبس براہ راست حجر سے روایت کر رہے ہیں، اور «وخفض بها صوته» (آواز پست کی) کہا ہے، جب کہ یہ «ومدّ بها صوته» (اپنی آواز کھینچی) ہے،
۶- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ اور علاء بن صالح اسدی نے بھی سلمہ بن کہیل سے سفیان ہی کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 172 (932)، سنن النسائی/الافتتاح 4 (880)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 14 (855)، (تحفة الأشراف: 11758)، مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الصلاة 39 (1283) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: شعبہ نے اس حدیث میں تین غلطیاں کی ہیں ایک تو انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے جب کہ یہ حجر بن عنبس ہے دوسری یہ کہ انہوں نے حجر بن عنبس اور وائل بن حجر کے درمیان علقمہ بن وائل کے واسطے کا اضافہ کر دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے اور تیسری یہ کہ انہوں نے «و خفض بها صوته» کہا ہے جب کہ «مدّ بها صوته» ہے۔
۲؎: گویا سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس حدیث کی روایت میں علاء بن صالح اسدی نے سفیان کی متابعت کی ہے۔ (جو آگے آ رہی ہے)

قال الشيخ الألباني: (حديث سفيان عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) صحيح. (حديث شعبة عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) شاذ (حديث سفيان عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) ، ابن ماجة (855) . (حديث شعبة عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) ، صحيح أبي داود (863)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
شاذ ¤ رواية شعبه : وخفض بها صوته ، شاذة ، ضعفها البخاري وغيره وحديث سفيان الثوري عن سلمه : صحیح .

Share this: