احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ
باب: وضو نماز کی کنجی ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3
حدثنا قتيبة وهناد , ومحمود بن غيلان , قالوا: حدثنا وكيع، عن سفيان. ح وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن محمد بن الحنفية، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم ". قال ابو عيسى: هذا الحديث اصح شيء في هذا الباب واحسن، وعبد الله بن محمد بن عقيل: هو صدوق، وقد تكلم فيه بعض اهل العلم من قبل حفظه. قال ابو عيسى: وسمعت محمد بن إسماعيل، يقول: كان احمد بن حنبل , وإسحاق بن إبراهيم , والحميدي يحتجون بحديث عبد الله بن محمد بن عقيل، قال محمد: وهو مقارب الحديث. قال ابو عيسى: وفي الباب عن جابر , وابي سعيد.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف «اللہ اکبر» کہنا ہے ۱؎ اور نماز میں جو چیزیں حرام تھیں وہ «السلام علیکم ورحمة اللہ» کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے،
۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں ۳؎، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اور حمیدی: عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں،
۳- اس باب میں جابر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة 31 (61) سنن ابن ماجہ/الطہارة3 (275) (تحفة الأشراف: 10265) مسند احمد (1/123، 129) سنن الدارمی/ الطہارة 22 (714) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ اکبر ہی کہہ کر نماز میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے نماز میں حرام کیا ہے، «اللہ اکبر» کہہ کر نماز میں داخل ہونا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا دائمی عمل تھا، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے نماز کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔
۲؎: یعنی صرف «السلام علیکم ورحمة اللہ» ہی کے ذریعہ نماز سے نکلا جا سکتا ہے۔ دوسرے کسی اور لفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔
۳؎: یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اور جمہور کے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پر دلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیں ہوتا، امام بخاری رحمہ اللہ جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جو تعدیل کا تیسرا مرتبہ ہے۔
۴؎: مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، لفظ مقارب دو طرح پڑھا جاتا ہے: راء پر زبر کے ساتھ، اور راء کے زیر کے ساتھ، زبر کے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے، اور زیر کے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگر ثقہ راویوں کی حدیث سے قریب تر ہے، یعنی اس میں کوئی شاذ یا منکر روایت نہیں ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صیغہ ولید بن رباح اور عبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (275)

Share this: