احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: باب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثَةً
باب: کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2690
حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: استاذن ابو موسى على عمر، فقال: السلام عليكم، اادخل ؟ قال عمر: واحدة ثم سكت ساعة، ثم قال: السلام عليكم، اادخل ؟ قال عمر: ثنتان ثم سكت ساعة، فقال: السلام عليكم، اادخل ؟ فقال عمر: ثلاث، ثم رجع فقال عمر للبواب: ما صنع ؟ قال: رجع، قال علي به، فلما جاءه قال: ما هذا الذي صنعت ؟ قال: السنة، قال السنة ؟ , والله لتاتيني على هذا ببرهان او ببينة او لافعلن بك، قال: فاتانا ونحن رفقة من الانصار، فقال: يا معشر الانصار، الستم اعلم الناس رسول لله صلى الله عليه وسلم ؟ الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاستئذان ثلاث فإن اذن لك، وإلا فارجع " فجعل القوم يمازحونه، قال ابو سعيد: ثم رفعت راسي إليه فقلت: فما اصابك في هذا من العقوبة فانا شريكك، قال: فاتى عمر فاخبره بذلك، فقال عمر: ما كنت علمت بهذا , وفي الباب عن علي، وام طارق مولاة سعد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والجريري اسمه: سعيد بن إياس يكنى: ابا مسعود، وقد روى هذا غيره ايضا عن ابي نضرة، وابو نضرة العبدي اسمه: المنذر بن مالك بن قطعة.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کر چکے، پھر ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ واپس ہو لیے، عمر رضی الله عنہ نے دربان سے کہا: ابوموسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پر عمل کیا ہے، عمر رضی الله عنہ نے کہا سنت پر؟ قسم اللہ کی! تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل و ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: «الاستئذان ثلاث» (اجازت طلبی) تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا: اس سلسلے میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبر دی، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابومسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے،
۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الآداب 7 (2153) (تحفة الأشراف: 4330) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہو سکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی الله عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: