احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

77: بَابُ هَلْ تَنْقُضُ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا عِنْدَ الْغُسْلِ
باب: کیا عورت غسل کے وقت اپنے بال کھولے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 105
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ايوب بن موسى، عن سعيد المقبري، عن عبد الله بن رافع، عن ام سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله إني امراة اشد ضفر راسي افانقضه لغسل الجنابة ؟ قال: " لا إنما يكفيك ان تحثين على راسك ثلاث حثيات من ماء، ثم تفيضين على سائر جسدك الماء فتطهرين " او قال: " فإذا انت قد تطهرت ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم: ان المراة إذا اغتسلت من الجنابة فلم تنقض شعرها، ان ذلك يجزئها بعد ان تفيض الماء على راسها.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔ کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں؟ آپ نے فرمایا: تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے۔ پھر پورے بدن پر پانی بہا دو تو پاک ہو گئی، یا فرمایا: جب تم ایسا کر لے تو پاک ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اہل علم کا اسی پر عمل پر ہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے، اور اپنے بال نہ کھولے تو یہ اس کے لیے اس کے بعد کہ وہ اپنے سر پر پانی بہا لے کافی ہو جائے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض 12 (330)، سنن النسائی/الطہارة 150 (242)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 108 (603)، (تحفة الأشراف: 18172)، مسند احمد (6/315)، سنن الدارمی/الطہارة 114 (1196) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہی جمہور کا مذہب ہے کہ عورت خواہ جنابت کا غسل کر رہی ہو یا حیض سے پاکی کا: کسی میں بھی اس کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں لیکن حسن بصری اور طاؤس نے ان دونوں میں تفریق کی ہے، یہ کہتے ہیں کہ جنابت کے غسل میں تو ضروری نہیں لیکن حیض کے غسل میں ضروری ہے، اور عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے «انقضى رأسك وامتشطي» فرمایا ہے جمہور نے استحباب پر محمول کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (603)

Share this: