احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

58: باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ
باب: صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 230
حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن حصين، عن هلال بن يساف، قال: اخذ زياد بن ابي الجعد بيدي ونحن بالرقة، فقام بي على شيخ يقال له: وابصة بن معبد من بني اسد، فقال زياد، حدثني هذا الشيخ، ان رجلا صلى خلف الصف وحده والشيخ يسمع، " فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعيد الصلاة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي بن شيبان وابن عباس، قال ابو عيسى: وحديث وابصة حديث حسن، وقد كره قوم من اهل العلم ان يصلي الرجل خلف الصف وحده، وقالوا: يعيد إذا صلى خلف الصف وحده، وبه يقول: احمد، وإسحاق، وقد قال قوم من اهل العلم: يجزئه إذا صلى خلف الصف وحده، وهو قول: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وقد ذهب قوم من اهل الكوفة إلى حديث وابصة بن معبد ايضا، قالوا: من صلى خلف الصف وحده يعيد، منهم حماد بن ابي سليمان , وابن ابي ليلى ووكيع، وروى حديث حصين، عن هلال بن يساف غير واحد، مثل رواية ابي الاحوص، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة بن معبد، وفي حديث حصين ما يدل على ان هلالا قد ادرك وابصة، واختلف اهل الحديث في هذا، فقال بعضهم: حديث عمرو بن مرة، عن هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة بن معبد اصح، وقال بعضهم: حديث حصين، عن هلال بن يساف، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة بن معبد اصح، قال ابو عيسى: وهذا عندي اصح من حديث عمرو ابن مرة، لانه قد روي من غير حديث هلال بن يساف، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة.
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا، (ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جا کر بنی اسد کے وابصہ بن معبد نامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا: مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اور شیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- وابصہ بن معبد رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی ہے تو وہ نماز دہرائے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،
۴- اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے کافی ہو گا جب وہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا بھی یہی قول ہے،
۵- اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، وہ اسے دہرائے۔ انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلیٰ اور وکیع ہیں،
۶- مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکر کے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة» روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن زياد بن أبي الجعد عن وابصة» روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیاد بن ابی الجعد کے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 100 (682)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 54 (1004)، (تحفة الأشراف: 11738)، مسند احمد (4/228)، سنن الدارمی/الصلاة 61 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: صف کے پیچھے اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کی نماز درست ہے یا نہیں، اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے: امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز درست نہیں، ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس رضی الله عنہم کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں، (جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گرچہ وہ ضعیف ہیں، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے۔ ہاں! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1004)

Share this: