احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

16: باب مِنْهُ
باب: قیامت کے دن شفاعت پر ایک اور حدیث۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2446
حدثنا ابو حصين عبد الله بن احمد بن يونس كوفي , حدثنا عبثر بن القاسم، حدثنا حصين هو ابن عبد الرحمن، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: " لما اسري بالنبي صلى الله عليه وسلم جعل يمر بالنبي والنبيين ومعهم القوم والنبي والنبيين ومعهم الرهط والنبي والنبيين وليس معهم احد حتى مر بسواد عظيم، فقلت: من هذا ؟ قيل: موسى وقومه، ولكن ارفع راسك فانظر، قال: فإذا سواد عظيم قد سد الافق من ذا الجانب ومن ذا الجانب، فقيل: هؤلاء امتك وسوى هؤلاء من امتك سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب فدخل، ولم يسالوه ولم يفسر لهم، فقالوا: نحن هم، وقال قائلون: هم ابناؤنا الذين ولدوا على الفطرة والإسلام، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هم الذين لا يكتوون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة بن محصن فقال: انا منهم يا رسول الله ؟ قال: نعم، ثم قام آخر فقال: انا منهم ؟ فقال: سبقك بها عكاشة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سر کو بلند کیجئے اور دیکھئیے: تو یکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اور نہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیر بیان کی، چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت اسلام پر پیدا ہوئیں۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں، وہ صرف اپنے رب پر توکل و اعتماد کرتے ہیں، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا: عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کر لی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 31 (3410)، والطب 17 (5705)، و 42 (5752)، والرقاق 21 (6472)، و50 (6541)، صحیح مسلم/الإیمان 94 (220) (تحفة الأشراف: 5493)، و مسند احمد (1/271) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد، بھروسہ اور توکل کرتے ہیں، جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پر اعتماد و توکل کی اعلی مثال ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: