احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

26: بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةٌ
باب: سر کا مسح صرف ایک بار ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 34
حدثنا قتيبة، حدثنا بكر بن مضر، عن ابن عجلان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء، انها رات النبي صلى الله عليه وسلم " يتوضا , قالت: مسح راسه ومسح ما اقبل منه وما ادبر، وصدغيه واذنيه مرة واحدة ". قال: وفي الباب عن علي وجد طلحة بن مصرف بن عمرو. قال ابو عيسى: وحديث الربيع حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه مسح براسه مرة , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وبه يقول جعفر بن محمد , وسفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق: راوا مسح الراس مرة واحدة. حدثنا محمد بن منصور المكي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: سالت جعفر بن محمد عن مسح الراس: ايجزئ مرة ؟ فقال: إي والله.
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اور پچھلے حصہ کا بھی اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ربیع رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور بھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا،
۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور جعفر بن محمد، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،
۵- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سر کے مسح کے بارے میں پوچھا: کیا ایک مرتبہ سر کا مسح کر لینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن الإسناد)

وضاحت: ۱؎: اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو تین بار مسح کے قائل ہیں۔
۲؎: امام ترمذی نے امام شافعی سے ایسا ہی نقل کیا ہے، مگر بغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بار مسح کرنے کا قول نقل کیا ہے، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پر ہے، مگر یا تو یہ دیگر اعضاء پر قیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے (صحیحین کی نیز دیگر احادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے)۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
سنده ضعيف / د 129 جه : 441 ¤ قول جعفر بن محمد الصادق : سنده صحیح

Share this: