احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

68: باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجَهْرِ بِـ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)
باب: بسم اللہ الرحمن الرحیم زور سے نہ پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 244
حدثنا حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا سعيد بن إياس الجريري، عن قيس بن عباية، عن ابن عبد الله بن مغفل، قال: سمعني ابي وانا في الصلاة اقول: بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، فقال لي: اي بني محدث، إياك والحدث، قال: " ولم ار احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ابغض إليه الحدث في الإسلام يعني منه، قال: وقد صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ومع ابي بكر ومع عمر ومع عثمان، فلم اسمع احدا منهم يقولها فلا تقلها، إذا انت صليت " فقل: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مغفل حديث حسن، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي وغيرهم ومن بعدهم من التابعين، وبه يقول: سفيان الثوري، وابن المبارك، واحمد، وإسحاق، لا يرون ان يجهر ب: بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، قالوا: ويقولها في نفسه.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے نماز میں «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹے! یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ اسلام میں بدعت کا مخالف ہو، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، تو تم بھی اسے نہ کہو ۱؎، جب تم نماز پڑھو تو قرأت «الحمد لله رب العالمين‏» سے شروع کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ «بسم اللہ الرحمن الرحیم» زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کا کہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الإفتتاح 22 (909)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 4 (815)، (تحفة الأشراف: 9967)، مسند احمد (4/58)، و (5/54، 55) (ضعیف) (بعض ائمہ نے ’’ ابن عبداللہ بن مغفل ‘‘ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام ’’ یزید ‘‘ بتایا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ’’ صدوق ‘‘ قرار دیا ہے)

وضاحت: ۱؎: تم بھی اسے نہ کہو سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سرے سے «بسم اللہ» پڑھنے ہی سے منع کیا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے جہر (بلند آواز) سے پڑھنے سے روکنے پر محمول کیا جائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا، اس جملے کا تعلق بلند آواز سے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جو جہر (زور) سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
۲؎: «بسم اللہ» کے زور سے پڑھنے کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال آمين وقال الناس آمين» الحدیث، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «بسم اللہ» کا ذکر نہیں ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نعیم المحجر ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اور جہراً دونوں طرح سے جائز ہے لیکن اکثر اور زیادہ تر صحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں (دیکھئیے حدیث رقم: ۲۴۶)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (815) // ضعيف سنن ابن ماجة (174) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 815 ¤ ابن عبد الله بن مغفل / محمد ، لم يوثقه غير ابن حبان . [حديث : 245 ، انظر ص 317]

Share this: