احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

67: باب مَا يَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
باب: نماز شروع کرتے وقت کون سی دعا پڑھے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 242
حدثنا محمد بن موسى البصري، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن علي بن علي الرفاعي، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد الخدري، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة بالليل كبر، ثم يقول: " سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك ولا إله غيرك " ثم يقول: " الله اكبر كبيرا " ثم يقول: " اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وعائشة، وعبد الله بن مسعود، وجابر، وجبير بن مطعم وابن عمر، قال ابو عيسى: وحديث ابي سعيد اشهر حديث في هذا الباب، وقد اخذ قوم من اهل العلم بهذا الحديث، واما اكثر اهل العلم، فقالوا: بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يقول: " سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك " وهكذا روي عن عمر بن الخطاب وعبد الله بن مسعود، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من التابعين وغيرهم، وقد تكلم في إسناد حديث ابي سعيد، كان يحيى بن سعيد يتكلم في علي بن علي الرفاعي، وقال احمد: لا يصح هذا الحديث.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «اللہ اکبر» کہتے، پھر «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» اے اللہ! پاک ہے تو ہر عیب اور ہر نقص سے، سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان، اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پڑھتے پھر «الله أكبر كبيرا» اللہ بہت بڑا ہے کہتے پھر «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» میں اللہ سمیع و علیم کی شیطان مردود سے، پناہ چاہتا ہوں، اس کے وسوسوں سے، اس کے کبر و نخوت سے اور اس کے اشعار اور جادو سے کہتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن مسعود، جابر، جبیر بن مطعم اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- اس باب میں ابوسعید کی حدیث سب سے زیادہ مشہور ہے،
۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کو اختیار کیا ہے، رہے اکثر اہل علم تو ان لوگوں نے وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» کہتے تھے ۲؎ اور اسی طرح عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما سے مروی ہے۔ تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
۴- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔ یحییٰ بن سعید راوی حدیث علی بن علی رفاعی کے بارے میں کلام کرتے تھے۔ اور احمد کہتے تھے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 122 (775)، سنن النسائی/الافتتاح 18 (900)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 1 (804)، (تحفة الأشراف: 4252)، سنن الدارمی/الصلاة 33 (1275) (صحیح) (یہ اور عائشہ رضی الله عنہا کی اگلی حدیث دونوں کی سندوں میں کچھ کلام ہے اس لیے یہ دونوں حدیثیں متابعات وشواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہیں)

وضاحت: ۱؎: دعا استفتاح کے سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت «اللهم باعد بيني وبين خطاي» الخ ہے کیونکہ اس کی تخریج بخاری اور مسلم دونوں نے کی ہے، پھر اس کے بعد علی رضی الله عنہ کی روایت «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض» الخ ہے اس لیے کہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے، بعض لوگوں نے اس روایت کے سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ امام مسلم نے اس کی تخریج صلاۃ اللیل میں کی جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دعا نماز تہجد کے لیے مخصوص ہے اور فرض نماز میں یہ مشروع نہیں، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مسلم میں صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے لیکن کسی میں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ یہ دعا آپ صرف تہجد میں پڑھتے تھے، اور امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں تین طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی نہیں ہے کہ آپ تہجد میں اسے پڑھتے تھے، اس کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے تھے، ابوداؤد نے بھی اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں اسے دو طریق سے نقل کیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ تہجد میں پڑھتے تھے، بلکہ اس کے برعکس ایک میں یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس وقت یہ دعا پڑھتے، اسی طرح دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نماز شروع کرتے تو «إني وجهت وجهي» پڑھتے، ان احادیث کی روشنی میں یہ قول کہ یہ نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے صحیح نہیں ہے۔
۲؎: اس حدیث میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ والی مذکور دعا اور عمر بن الخطاب وابن مسعود رضی الله عنہم والی دعا میں فرق یہ ہے کہ ابوسعید والی میں ذرا اضافہ ہے جیسے «الله أكبر كبيراً» اور «أعوذ بالله…من همزه ونفخه» جبکہ عمر رضی الله عنہ والی میں یہ اضافہ نہیں ہے اور سند اور تعامل کے لحاظ سے یہی زیادہ صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (804)

Share this: