احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

11: بَابُ: إِمَامَةِ الْغُلاَمِ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ
باب: نابالغ بچہ کی امامت کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 790
اخبرنا موسى بن عبد الرحمن المسروقي، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن سفيان، عن ايوب، قال: حدثني عمرو بن سلمة الجرمي، قال: كان يمر علينا الركبان فنتعلم منهم القرآن فاتى ابي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ليؤمكم اكثركم قرآنا فجاء ابي فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"ليؤمكم اكثركم قرآنا فنظروا فكنت اكثرهم قرآنا فكنت اؤمهم وانا ابن ثمان سنين".
عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: 637 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں ۷ سال کا ذکر ہے، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، اس لیے کہ «یؤم القوم أقراہم لکتاب اللہ» کہ عموم میں صبی ممیز (باشعور بچہ) بھی داخل ہے، اور کتاب و سنت میں کوئی بھی نص ایسا نہیں جو اس سے متعارض و متصادم ہو، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: