احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: بَابُ: السَّعَةِ لِلْحَاكِمِ فِي أَنْ يَقُولَ لِلشَّىْءِ الَّذِي لاَ يَفْعَلُهُ افْعَلْ لِيَسْتَبِينَ الْحَقَّ
باب: حاکم کے لیے اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کہے کہ میں ایسا کروں گا حالاں کہ اس کا ارادہ کرنے کا نہ ہو۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 5405
اخبرنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا شعيب بن الليث، قال: حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال:"خرجت امراتان معهما صبيان لهما، فعدا الذئب على إحداهما فاخذ ولدها، فاصبحتا تختصمان في الصبي الباقي إلى داود عليه السلام، فقضى به للكبرى منهما، فمرتا على سليمان، فقال: كيف امركما ؟ فقصتا عليه، فقال: ائتوني بالسكين اشق الغلام بينهما، فقالت الصغرى: اتشقه ؟ قال: نعم، فقالت: لا تفعل حظي منه لها، قال: هو ابنك فقضى به لها".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ دونوں اس بچے کے سلسلے میں جو باقی تھا جھگڑتی ہوئی داود علیہ السلام کے پاس آئیں، تو انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، پھر وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں، وہ بولے: تم دونوں کا کیا قضیہ ہے؟ چنانچہ انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا: چھری لاؤ، بچے کے دو حصے کر کے ان دونوں کے درمیان تقسیم کروں گا ۱؎، چھوٹی عورت بولی: کیا آپ اسے کاٹیں گے؟ کہا: ہاں، وہ بولی: ایسا نہ کیجئیے، اس میں جو میرا حصہ ہے وہ بھی اسی کو دے دیجئیے، سلیمان علیہ السلام نے کہا: یہ تمہارا بیٹا ہے، چنانچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الَٔقضیة 10 (1720)، (تحفة الأشراف: 13867) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اسی جملے میں باب سے مطابقت ہے، سلیمان علیہ السلام کا مقصد بچے کو حقیقت میں ٹکڑے کر کے تقسیم کرنا نہیں تھا، بس اس طریقے سے وہ بچے کی حقیقی ماں کو پہچاننا چاہتے تھے، واقعی میں جس کا بچہ تھا وہ (چھوٹی عورت) بچے کے ٹکڑے کرنے پر راضی نہیں ہوئی، جب کہ جس کا بچہ نہیں تھا وہ خاموش رہی، اسے دوسری کے بچے سے کیا محبت ہو سکتی تھی؟ اس لیے ٹکڑے کرنے پر خاموش رہی، اس طرح آپ نے حقیقت کا پتہ چلا لیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: