احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

44: بَابُ: كَمِ الصَّاعُ
باب: صاع کتنے مد کا ہوتا ہے۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 2521
اخبرنا عمرو بن زرارة، قال: انبانا القاسم وهو ابن مالك، عن الجعيد , سمعت السائب بن يزيد، قال:"كان الصاع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مدا، وثلثا بمدكم اليوم، وقد زيد فيه", قال ابو عبد الرحمن: وحدثنيه زياد بن ايوب.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا۔ اور ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں: اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الکفارات 5 (6712)، والاعتصام 16 (7330)، (تحفة الأشراف: 3795) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابویوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کر لیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گی ہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / (د 3340) ، ياتى: 4598

سنن نسائي حدیث نمبر: 2521M
اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن حنظلة، عن طاوس، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"المكيال مكيال اهل المدينة، والوزن وزن اهل مكة".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع 8 (3340)، (تحفة الأشراف: 7102)، ویأتی عند المؤلف برقم 4598 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لیے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہو گا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: