احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

102: بَابُ: فِيمَنْ أُحْصِرَ بِعَدُوٍّ
باب: جسے دشمن کے سبب حج سے روک دیا جائے۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 2862
اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقرئ، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا جويرية، عن نافع، ان عبد الله بن عبد الله , وسالم بن عبد الله اخبراه , انهما كلما عبد الله بن عمر لما نزل الجيش بابن الزبير، قبل ان يقتل، فقالا: لا يضرك ان لا تحج العام، إنا نخاف ان يحال بينك وبين البيت، قال:"خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحال كفار قريش دون البيت، فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم هديه، وحلق راسه، واشهدكم اني قد اوجبت عمرة إن شاء الله انطلق، فإن خلي بيني وبين البيت، طفت، وإن حيل بيني وبين البيت فعلت ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، ثم سار ساعة، ثم قال: فإنما شانهما واحد، اشهدكم اني قد اوجبت حجة مع عمرتي، فلم يحلل منهما حتى احل يوم النحر واهدى".
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں نے انہیں خبر دی کہ ان دونوں نے جب حجاج بن یوسف کے لشکر نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تو ان کے قتل کئے جانے سے پہلے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بات کی ان دونوں نے کہا: امسال آپ حج کے لیے نہ جائیں تو کوئی نقصان نہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کر دی جائے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو کفار قریش بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہیں) اپنی ہدی کا نحر کر لیا اور سر منڈا لیا (اور حلال ہو گئے) سنو! میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ (اپنے اوپر) واجب کر لیا ہے۔ ان شاءاللہ میں جاؤں گا اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے سے نہ روکا گیا تو میں طواف کروں گا، اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ پھر وہ تھوڑی دیر چلتے رہے۔ پھر کہنے لگے بلاشبہ حج و عمرہ دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے، میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کر لیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حج و عمرہ دونوں میں سے کسی سے بھی احرام نہیں کھولا۔ یہاں تک کہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو احرام کھولا، اور ہدی کی قربانی کی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المحصر 1 (1807)، 1808)، المغازي 35 (4185)، (تحفة الأشراف: 7032) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: