احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

11: بَابُ: مَا يَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الإِبِلِ
باب: محصل زکاۃ والے سے کس قسم کا اونٹ لے؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1801
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا شريك ، عن عثمان الثقفي ، عن ابي ليلى الكندي ، عن سويد بن غفلة ، قال: " جاءنا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فاخذت بيده، وقرات في عهده، لا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، فاتاه رجل بناقة عظيمة ململمة فابى ان ياخذها، فاتاه باخرى دونها فاخذها، وقال: اي ارض تقلني، واي سماء تظلني، إذا اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اخذت خيار إبل رجل مسلم ".
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل صدقہ (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اس کے میثاق (عہد نامہ) میں پڑھا کہ الگ الگ مالوں کو یکجا نہ کیا جائے، اور نہ مشترک مال کو زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ کیا جائے، ایک شخص ان کے پاس ایک بھاری اور موٹی سی اونٹنی لے کر آیا، عامل زکاۃ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا، آخر وہ دوسری اونٹنی اس سے کم درجہ کی لایا، تو عامل نے اس کو لے لیا، اور کہا کہ کون سی زمین مجھے جگہ دے گی، اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا؟ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان کا بہترین مال لے کے جاؤں گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة 4 (1579)، سنن النسائی/الزکاة 12 (2459)، (تحفة الأشراف: 15593)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الزکاة 8 (1670) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے ڈر سے زیادہ کا اندیشہ مالک کو ہو گا، اور کم کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے کو ہو گا، یہ حکم زکاۃ دینے والے اور زکاۃ وصول کرنے والے دونوں کے لیے ہے۔ الگ الگ کو یکجا کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں، الگ الگ کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑے گی اس طرح مجموعی طور پر تین بکریاں دینی پڑتی ہیں مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سب بکریاں جمع کر لیتے ہیں اور تعداد ایک سو بیس بن جاتی ہے، اس طرح ان کو صرف ایک بکری دینی پڑتی ہے۔ اور اکٹھا بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں اور دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں اس طرح تین بکریاں زکاۃ میں دینا لازم آتا ہے مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمہ ایک ایک ہی بکری لازم آتی ہے، خلاصہ یہ کہ اس طرح کی حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو نہ تو باہم شریک (ساجھی دار) ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملائے ہوئے ہیں ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ایک سو بیس یا اس سے کم و زیادہ بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک کو ایک بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں از خود جمع کر دیتا ہے، اور ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو جاتی ہے، اس طرح وہ تین بکریاں وصول کر لیتا ہے اور جمع شدہ کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں اس صورت میں صرف ایک ہی بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کر لیتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / د 1580

Share this: